فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ
لڑکیوں نے ایک دوسری کے منہ کی طرف دیکھا اور سر ہلائے ۔ علی بن سفیان نے کہا ''تم سب ہماری زبان سمجھتی ہو''۔
لڑکیاں اسے حیران سا ہوکے دیکھتی رہیں ۔
علی اُن کے چہروں اور ڈیل ڈول سے شک میں پڑگیا تھا۔ وہ لڑکیوں کے پیچھے جا کھڑا ہوا اور عربی زبان میں کہا……''ان لڑکیوں کے کپڑے اُتار کر ننگا کردو اور بارہ وحشی قسم کے سپاہی بلا لائو''۔
تمام لڑکیاں بدک کر پیچھے کو مُڑیں ۔ دو تین نے بیک وقت بولنا شروع کردیا، وہ عربی زبان بول رہی تھیں……
''لڑکیوں کے ساتھ تم ایسا سلوک نہیں کر سکتے ''……
ایک نے کہا……
''ہم تمہارے خلاف نہیں لڑیں''۔
علی بن سفیان کی ہسنی نکل گئی ۔اس نے کہا……''میں تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کروں گا۔ تم نے جس طرح ایک ہی دھمکی سے عربی بولنی شروع کردی ہے ،اب بغیر کسی دھمکی کے یہ بتا دو کہ ساتویں لڑکی کہاں ہے''……سب نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔ علی نے کہا……''میں اس سوال کا جواب لے کر رہوں گا۔ تم نے سلطان پر ظاہر کیا ہے کہ تم ہماری زبان نہیں جانتیں ، اب تم ہماری زبان ہماری طرح بول رہی ہو۔ کیا میں تمہیں چھوڑدوں گا؟''……اس نے سنتری سے کہا……''انہیں خیمے کے اندر بٹھا دو''۔
رات کے سنتری آگئے تھے ۔ فخر المصری کی گشت کے وقت کے سنتریوں سے علی بن سفیان نے پوچھ گچھ کی ۔ آخر لڑکیوں کے خیمے والے سنتری نے بتایا کہ فخر رات اُسے یہاں کھڑا کر کے زخمیوں کے خیموں کی طرف گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے اس کی آواز سنائی دی ……''کون ہوتم ؟نیچے آئو''……سنتری نے اُدھر دیکھا تو اندھیرے میں اسے کچھ بھی نظر نہ آیا ۔ سامنے مٹی کے ٹیلے پر اُسے ایک آدمی کا سایہ نظر آیا اور وہ سایہ وہیں غائب ہوگیا۔
علی بن سفیان فوراً وہاں گیا۔ یہ ٹیلہ ساحل کے قریب تھا۔ اس کی مٹی ریتلی تھی ۔ ایک جگہ سے صاف پتہ چل رہاتھا کہ وہاں کوئی اوپر گیا ہے ۔ وہاں زمین پر دو قسم کے پائوں کے نشان تھے ۔ ایک نشان تو مرد کا تھا، جس نے فوجیوں والا جوتا پہن رکھا تھا۔ دوسرا نشان چھوٹے جوتے کا تھا اور زنانہ لگتا تھا۔ زمین کچی اور ریتلی تھی تھی۔ زنانہ نشان جدھر سے آیا تھا، علی بن سفیان اُدھر کو چل پڑا۔یہ نشان اُسے اس خیمے تک لے گئے جہاں موبی رابن سے ملی تھی ۔ اس نے خیمے کا پردہ اُٹھا یا اور اندر چلا گیا۔
اس کی چہرہ شناس نگاہوں نے زخمی قیدیوں کو دیکھا۔ سب کے چہرے بھانپے ۔
رابن بیٹھا ہوا تھا۔
اس نے علی بن سفیان کو دیکھا اور فوراً ہی کر اہنے لگا،جیسے اسے دردکا اچانک دورہ پڑا ہو۔علی نے اسے کندھے سے پکڑ کر اُٹھا لیا اور خیمے سے باہر لے گیا۔ اس سے پوچھا……''رات کو ایک قیدی لڑکی اس خیمے میں آئی تھی ،کیوں آئی تھی ؟''……رابن اسے ایسی نظروں سے دیکھنے لگا جن میں حیرت تھی اور ایسا تاثر بھی جیسے وہ کچھ سمجھا ہی نہ ہو۔ علی بن سفیان نے اُسے آہستہ سے کہا……''تم میری زبان سمجھتے ہو دوست!میں تمہاری زبان سمجھتا ہوں ۔بول سکتاہوں ، لیکن تمہیں میری زبان میں جواب دینا ہوگا''……رابن اس کا منہ دیکھتا رہا۔
علی نے سنتری سے کہا۔''اسے خیمے سے باہر رکھو''۔
علی بن سفیان خیمے کے اندر چلاگیا اور قیدیوں سے اُن کی زبان میں پوچھا ۔ ''رات کو لڑکی اس خیمے میں کتنی دیر رہی تھی ؟اپنے آپ کو اذیت میں نہ ڈالو''۔
سب چپ رہے ،مگر ایک اور دھمکی سے ایک زخمی نے بتادیا کہ لڑکی خیمے میں آئی تھی اور رابن کے پاس بیٹھی یا لیٹی رہی تھی ۔ یہ زخمی سمندر سے جلتے جہاز سے کودا تھا۔اس نے آگ اور پانی کا بھی قہر دیکھا تھا۔ وہ اتبا زخمی نہیں ،جتنا خوف زدہ تھا۔ وہ کسی اور مصیبت میں پڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس نے بتایا کہ اسے یہ معلوم نہیں کہ رابن اور لڑکی کے درمیان کیا باتیں ہوئی اور لڑکی کون تھی ۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ رابن کا عہدہ کیا ہے ۔ وہ اس کے صرف نام سے واقف تھا۔ا س نے یہ بھی بتادیا کہ رابن اس کیمپ میں آنے تک بالکل تندرست تھا۔ یہاں آکر وہ اس طرح کراہنے لگا، جیسے اُسے اچانک کسی بیماری کا دورہ پڑگیا ہو۔
علی بن سفیان ایک محافظ کی راہنمائی میں اُن پانچ آدمیوں کو دیکھنے چلا گیا جو تاجروں کے بہروپ میں کچھ دُور خیمہ زن تھے ۔محافظوں نے انہیں الگ بٹھا رکھا تھا۔علی کو انہوں نے پہلی اطلاع یہ دی کہ اُن کے پاس کل دو اونٹ تھے ، مگر آج ایک ہی ہے ۔ یہی اشارہ کافی تھا۔ وہ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے کہ دوسرا اونٹ کہاں ہے ۔ دوسرے اونٹ کے پائوں کے نشان مل گئے ۔ علی بن سفیان نے انہیں کہا……''تمہارا جُرم معمولی چوری چکاری نہیں ہے ۔تم ایک پوری سلطنت اور اس کی تمام ترآبادی کے لیے خطرہ ہو۔ اسلیے میں تم پر ذرہ بھر رحم نہیں کروں گا۔ کیا تم تاجر ہو؟''
''ہاں''……سب نے سر ہلا کر کہا……''ہم تاجر ہیں جناب ! ہم بے گناہ ہیں ''۔
علی بن سفیان نے کہا……''اپنے ہاتھوں کی اُلٹی طرف میرے سامنے کرو''۔ پانچوں نے ہاتھ اُلٹے کر کے آگے کردئیے ۔علی نے سب کے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی اُنگلی کی درمیانی جگہ کو دیکھا اور ایک آدمی کو کلائی سے پکڑ کر گھسیٹ لیا ۔اسے کہا……''کمان اور ترکش کہاں چھپا رکھی ہے؟'' اس آدمی نے معصوم بننے کی بہت کوشش کی ۔علی نے سلطان ایوبی کے ایک محافظ کو اپنے پاس بلا کر اس کے بائیں ہاتھ کی اُلٹی طرف اسے دکھائی ۔اس کے انگوٹھے کے اُلٹی طرف اُس جگہ جہاں انگوٹھا ہتھیلی کے ساتھ ملتا ہے ، یعنی جہاں جوڑ ہوتاہے ، وہاں ایک نشان تھا۔ ایسا نشان اس آدمی کے انگوٹھے کے جوڑ پر بھی تھا۔ علی نے اسے اپنے محافظ کے متعلق بتایا……''یہ سلطان ایوبی کا بہترین تیر انداز ہے اور یہ نشان اس کا ثبوت ہے کہ یہ تیر انداز ہے ''۔ اس کے انگوٹھے کی اُلٹی طرف ایک مدھم سا نشان تھا، جیسے وہاں بار بار کوئی چیز رگڑی جاتی رہی ہو۔ یہ تیروں کی رگڑ کے نشان تھے ۔تیر دائیں ہاتھ سے پکڑا جاتا ہے ۔کمان بائیں ہاتھ سے پکڑی جاتی ہے ، تیر کا اگلا حصہ بائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ہوتا ہے اور جب تیر کمان سے نکلتا ہے تو انگوٹھے پر رگڑ کھا جاتا ہے ۔ایسا نشان ہر ایک تیر انداز کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ علی بن سفیان نے کہا…… ''ان پانچ میں تم اکیلے تیر انداز ہو۔کمان اور ترکش کہاں ہے؟''…… پانچوں چپ رہے ۔علی نے ان پانچ میں سے ایک کو پکڑ کر محافظوں سے کہا…… ''اس کو اُس درخت کے ساتھ باندھ دو''۔ اسے کھجور کے درخت کے ساتھ کھڑا کرکے باندھ دیا گیا۔علی نے اپنے تیر انداز کے کان میں کچھ کہا۔ تیر انداز نے کندھے سے کمان اُتار کر اس میں تیر رکھا اور درخت سے بندھے ہوئے آدمی کا نشانہ لے کر تیر چھوڑا ۔ تیر اس آدمی کی دائیں آنکھ میں اتر گیا ۔وہ تڑپنے لگا۔ علی نے باقی چار سے کہا……''تم میں کتنے ہیں جو جو صلیب کی خاطر اس طرح تڑپ تڑپ کر جان دینے کو تیار ہیں ؟اس کی طرف دیکھو''……انہوں نے دیکھا۔ وہ آدمی چیخ رہاتھا، تڑپ رہا تھا، اس کی آنکھ سے خون بُری طرح بہہ رہاتھا۔ ''میں تم سے وعدہ کرتاہوں ''…… علی بن سفیان نے کہا…… ''کہ باعزت طریقے سے تم سب کو سمندر پار بھیج دوں گا……''دوسرے اونٹ پر کون گیا ہے ؟کہاں گیا ہے ؟'' ''تمہارا اپنا ایک کمان دار ہمارا ایک اونٹ ہم سے چھین کر لے گیا ہے ''……ایک آدمی نے کہا۔ ''اور ایک لڑکی بھی ''۔ علی بن سفیان نے کہا۔ تھوڑی ہی دیر بعد علی بن سفیان کے فن نے اُن سے اعتراف کروالیا کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں ، مگر انہوں نے یہ جھوٹ بولا کہ لڑکی رات خیمے سے بھاگ آئی تھی اور اس نےبتایا کہ صلاح الدین ایوبی نے رات اسے اپنے خٰمے میں رکھا تھا، اس نے شراب پی رکھی تھی اور لڑکی کو بھی پلائی تھی اور لڑکی گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں آئی تھی ۔ اس کے تعاقب میں فخر المصری نام کا ایک کمان دار آیا اور اس نے جب لڑکی کی باتیں سنیں تو اسے ہمارے اونٹ پر بٹھا کر زبردستی لے گیا۔ انہوں نے وہ تمام بہتان علی بن سفیان کو سنائے جو لڑکی نے سلطان ایوبی پر لگائے تھے ۔ علی نے مُسکرا کر کہا ……''تم پانچ تربیت یافتہ عسکری اور تیر انداز اور ایک آدمی تم سے لڑکی بھی لے گیا اور اونٹ بھی ''……اس نے انہی کی نشاندہی پر زمین میں دبائی ہوئی کمان اور ترکش بھی نکلوالی ۔ ان چاروں کو خیمہ گاہ میں بھجوا دیا گیا۔
پانچواں آدمی جو درخت کے تنے کے ساتھ بندھا ہوا تھا تڑپ تڑپ کر مرچکا تھا۔
اونٹ کے پائوں کے
نشان صف نظر آرہے تھے ۔ علی بن سفیان نے نہایت سرعت سے دس سوار بلائے اور انہیں اپنی کمان میں لے کر اس طرف روانہ ہوگیا، جدھر اونٹ گیا تھا، مگر اونٹ کی روانگی اور اس کے تعاقب میں علی بن سفیان کی روانگی میں ، چودہ پندرہ گھنٹوں کا فرق تھا، اونٹ تیز تھا اور اسے آرام کی بھی زیادہ ضرورت نہیں تھی ۔اونٹ ، پانی اور خوراک کے بغیر چھ سات دِن تروتازہ رہ سکتا ہے ۔
ا سکے مقابلے میں گھوڑوں کو راستے میں کئی بار آرام، پانی اور خوراک کی ضرورت تھی ۔ان عناصر نے تعاقب ناکام بنادیا۔ اونٹ نے چودہ پندرہ گھنٹوں کا فرق پورا نہ ہونے دیا۔ فخر المصری نے تعاقب کے پیشِ نظر قیام بہت کم کیا تھا۔ علی بن سفیان کو راستے میں صرف ایک چیز ملی ، یہ ایک تھیلا تھا۔ اس نے رُک کر تھیلا اُٹھایا ،کھول کر دیکھا، اس میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں ۔ اسی تھیلے میں ایک اور تھیلا تھا۔ اس میں بھی وہی چیزیں تھیں ۔علی بن سفیان کے سونگھنے کی تیز حس نے اسے بتادیا کہ ان اشیاء میں حشیش ملی ہوئی ہے ۔راستے میں اُسے دوجگہ ایسے آثار ملے تھے ، جن سے پتہ چلتا تھا کہ یہاں اونٹ رُکا ہے اور سوار یہاں بیٹھے ہیں ۔کھجوروں کی گٹھلیاں ، پھلوں کے بیج اور چھلکے بھی بکھرے ہوئے تھے ۔تھیلے نے اسے شک میں ڈال دیا۔ اس کے ذہن میں یہ شک نہ آیا کہ فخرالمصری کو حشیش کے نشے میں لڑکی اپنے محافظ کے طور پر ساتھ لے جارہی ہے ۔تاہم اس نے تھیلا اپنے پاس رکھا ، مگر تھیلے کی تلاشی اور قیام نے وقت ضائع کردیاتھا۔
فخر المصری اور موبی منزل پر نہ بھی پہنچتے اور راستے میں پکڑے بھی جاتے تو کوئی فرق نہ پڑتا ۔سوڈنی لشکر میں ناجی ،اوروش اور ان کے ساتھی جو زہر پھیلا چکے تھے وہ اثر کر گیا تھا۔ فاطمی خلافت کے وہ فوجی سربراہ جو برائے نام جرنیل اور دراصل حاکم بنے ہوئے تھے ،سلطان صلاح الدین ایوبی کو ایک ناکام امیر اور
بے کار حاکم ثابت کرنا چاہتے تھے ۔ مسلمان حکمران حرم میں اُن لڑکیوں کے اسیر ہوگئے تھے ۔حکومت کا کاروبار خود ساختہ افسر چلارہے تھے ، من مانی اور عیش و عشرت کررہے تھے ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ صلاح الدین ایوبی جیسا کوئی مذہب پسند اور قوم پرست قائد قوم کو جگا دے اور حکمرانوں اور سلطانوں کو حرم کی جنت سے باہر لاکر حقائق کی دُنیا میں لے آئے ۔ سلطان ایوبی کے پہلے معرکوں سے جو اس نے اپنے چچا شیر کوہ کی قیادت میں لڑے تھے ، یہ لوگ جان چکے تھے کہ اگر یہ شخص اقتدار میں آگیا تو اسلامی سلطنت کو مذہت اور اخلاقیات کی پابندیوں میں جکڑلے گا۔ لہٰذا انہوں نے ہر وہ داو کھیلا جو سلطان ایوبی کو چاروں شانے چت گرا سکتا تھا۔ انہوں نے درپردہ صلیبیوں سے تعاون کیا اور ان کے جاسوسوں اور تخریب کاروں کے لیے زمین ہموار کی اور اس کے راستے میں چٹانیں کھڑی کیں ۔اگر نور الدین زنگی نہ ہوتا تو آج نہ صلاح الدین ایوبی کا تاریخ میں نام ہوتا ، نہ آج نقشے پر اتنے زیادہ اسلامی ممالک نظر آتے..
نور الدین زنگی نے ذرا سے اشارے پر بھی سلطان ایوبی کو کمک اور مدد بھیجی ۔صلیبیوں نے مصری فوج کے سوڈانیوں کے بلاوے پر بحیرہ روم سے حملہ کیا تو نورالدین زنگی نے اطلاع ملتے ہی خشکی پر صلیبیوں کی ایک مملکت پر حملہ کر کے اُن کے اس لشکر کو مفلوج کردیا جو مصر پر حملہ کرنے کے لیے جارہا تھا۔یہ تو سلطان ایوبی کا نظامِ جاسوسی ایسا تھا کہ اس نے صلیبیوں کا بیڑہ غرق کردیا۔ اب علی بن سفیان نے زنگی کی طرف برق رفتار قاصد یہ خبر دینے کے لیے دوڑا دئیے تھے کہ سوڈانیوں کی بغاوت کا خطرہ ہے اور ہماری فوج کم بھی ہے ، دوحصوں میں بٹ بھی گئی ہے ۔قاصد پہنچ گئے تھے اور نورالدین زنگی نے خاصی فوج کو مصرکی طرف کوچ کا حکم دے دیا تھا۔ بعض مورخین نے اس فوج کی تعداد دوہزار سوار اور پیادہ لکھی ہے اور کچھ اس سے زیادہ بتاتے ہیں ۔
بہرحال زنگی نے اپنی مشکلات اور ضروریات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سلطان ایوبی کی مشکلات اور ضروریات کو اہمیت اور اولیت دی ، مگر اس کی فوج کو پہنچنے کے لیے بہت دِن درکار تھے ۔ مسلمان نام نہاد فوجی اور دیگر سرکردہ شخصیتوں نے دیکھا کہ مصر میں سلطان ایوبی کے خلاف بے اطمینانی اور بغاوت پھوٹ رہی ہے تو انہوں نے اسے ہوا دی ۔ در پردہ سوڈانیوں کو اُکسایا اور اپنے مخبروں کے ذریعے یہ بھی معلوم کرلیا کہ سوڈانیوں کے سالاروں کو مروا کر خفیہ طریقے سے دفن کردیا گیا ہے ۔ سوڈانی لشکر کے کم رتبے والے کمان دار سالار بن گئے اور صلاح الزین ایوبی کی اس قلیل فوج پر حملہ کرنے کے منصوبے بنانے لگے ، جو مصر میں مقیم تھی ۔ وہ سلطان ایوبی کی آدھی فوج اور سلطان کی دار الحکومت سے غیر حاضری سے فائدہ اُٹھانا چاہتے تھے ۔ منصوبہ ایسا تھا کہ جس کے تحت پچاس ہزار سوڈانی فوجی سیاہ گھٹا کی طرح مصر کے آسمان سے اسلام کے چاند کو روپوش کرنے والی تھی ۔
Comments
Post a Comment